Showing posts with label ایک اہم خط. Show all posts
Showing posts with label ایک اہم خط. Show all posts

Monday, August 19, 2013

ایک اہم خط

اسلام و علیکم
ارم بہنا؛
بارہ ربیع الاول کو آپ کے گھر منعقد ہونے والے اجتماع میں چند ایک مسا ئل کا ذکر کیا گیا ۔ براہ کرم اگر آپ کے پاس ان مسائل کے مستند دلائل ہوں تو مطلع فرما کر شکریہ کا موقع  دیں ۔ کیوںکہ دین اسلام کی بنیاد صرف کتاب و سنت پر ہے ۔ اور یہی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ اور اگر ہمیں ان کی سمجھ آ سکے تو یہی ہمارے لئے نجات کا سبب ہیں۔ میرے ذیہن میں آنے والے چند اشکال مندرجہ ذیل ہیں۔ 

 ۔(1) بارہ ربیع الاول کو زیادہ تر یہ موضوع بیان کیا گیا۔ کہ پاک محمد ﷺ ہم میں موجود ہیں۔ 
تو کیا۔۔؟
جب پاک محمد ﷺ موجود ہوں تو ان سے پردہ غیر محرم عورتوں پر لازم نہیں۔؟
۔(2) اگر  پاک محمد ﷺ موجود ہوں تو کیا اسٹیج پے کھڑے ہو نا  پاک محمد ﷺ کی توہین نہیں۔؟
۔(3) 12 ربیع الاول کو آپ میلاد مناتی ہیں۔ تو کیا 12 ربیع الاول عام الفیل سے پیہلے بھی آپ ﷺ حاضر تھے۔؟
۔(4) اگر حاضر و ںاضر تھے (میلاد سے پہلے بھی) تو میلاد  منانا چہ معنی دار۔؟
۔(5)معراج کے وقت پاک محمد ﷺ حضرت جبرائیل کے ساتھ پہلے مسجد اقصیٰ ۔ پھر سدرۃالمنتہیٰ تک گئے (جانا) لفظ کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب پہلے موجود نہ ہوں۔ اگر آپ ﷺ سدرۃالمنتہیٰ اور مسجد اقصیٰ میں  پہلے بھی موجود تھے تو کیا واقعہ معراج ایک ناٹک تھا۔۔؟
(فاعتبرو یا اولی الابصار)
۔(6) اور پاک محمد ﷺ کے زمانے میں صحابی کے میلاد منانے  والی حدیث بحوالہ مستند کتاب لکھ کر بھیج دیں۔ شکریہ۔
۔(7) ارم بہنا جب آپ نے اسٹیج پے کھڑے ہو کر کہا تھا کے درود پڑھیں۔ اور میں نے درود ابراہیم پڑھا۔ تو آپ نے بولا تھا کے اپنے والا نہیں ہمارے والا درود پڑہیں ۔ درود پڑھنا پاک محمد ﷺ پر ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ درود پڑھنے کا حکم اللہ نے دیا اور الفاظ پاک محمدﷺ نے بتلاۓ۔ پھر ہمارا اور تمھارا درود  اس تقسیم کا مطلب کیا ہے۔؟
والسلام آپ کے جواب کی منتظر ھنتہ بٹ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام و علیکم ھنتہ بہن۔!
آپ نے کچھ سوالات پوچھے ہیں ۔ جن کا جواب مجھ پے لازم ہے ۔اور ہم دین مناظرے کے لۓ حاصل نہں کرتے ۔ خدا کو حاضر جان کر کہتی ہوں کہ سواۓ آیات اور احادیث کے اپنی طرف سے اضافہ نہ کروں گی۔
اللہ نے نشان دہی فرما دی کہ روز محشر تک 73 فرقے ہوں گے ۔ فرقوں کا نام لے کے نہں کہا کہ کونسے 72 جہنمی ہوں گے ۔ اور کونسا ایک جنتی ہو گا۔؟

فرمایا جو میری سنت پر ہو گا ۔

اب ہمیں چاہئے کہ اللہ سے صراط مستقیم طلب کرتے ہو ئے جہاں سے ہدائیت ملے اسے قبول کر لیں ۔ اور یہ نہ دیکھیں کہ کس فرقے کا طریقہ ہے ۔

اور اگر آپ صراط مستقیم کی طالب ھیں تو تمام فرقوں سے قطع نظر ھو کر انہیں پڑھیں اور نتیجہ نکالیں میں حق کہوں گی لیکن اگر پھر بھی آپ کو یہ باتیں حق نہ لگیں تو آپ کو صرف اللہ سے تعلق جوڑ کر صراط مستقیم طلب کرنے کا طریقہ بتا دوں گی ۔
آپ اس نا چیز کی کاوش بھی پڑھ لیں ۔ 
 حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ھے حضرت عقبہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن گھر سے باھر تشریف لے گئے اور شہداء احد کی قبروں پر اس طرح نماز پڑھی جس طرح میت پر نماز پڑھی جاتی ھےپھر پلٹ کر ممبر پر آئے اور ارشاد فرمایاکہ میں تمہارا پیش رو اور گواہ ھوں اور میں اللہ کی قسم اپنے حوض کو اس وقت دیکھ رھا ھوں اور بیشک مجھکوزمین کے خزانوں کی کنجیاں دے دی گئی ھیں اور میں اللہ کی قسم یقین سے کہتا ھوں کہ مجھ کو تم لوگوں کے بارے میں ذرا بھی یہ ڈر نہیں کہ تم لوگ مشرک ھو جاؤ گے (میرے بعد)لیکن مجھے یہ خوف ھے کہ تم لوگ دنیا میں رغبت اور ایک دوسرے پر حسد کرو گے 
(صحیح بخاری کتاب الحوض)

میرے خیال میں اب وضاحت کی ضرورت نہں ۔ لیکن کچھ بیان کر دوں کہ یہاں زیارت قبور ، نبی ﷺ کا علم غیب ، نبیﷺ کا اللہ کی نعمتوں میں تصرف اور خاص کر زبان نبوت نے خدائے واحد کی قسم اٹھا کر فرمایا کہ مجھے یقین ہے کہ تم میرے بعد شرک نہیں کرو گے ۔ تو معاذ اللہ آپ اس پیشین گوئی کا کیا نتیجہ نکالیں گی ۔ جو آج بانگ دہل اہل اسلام کو مشرک قرار دیا جا رہا ہے ۔ 

اب انھیں شان رسالت پر کوئی حرف آتا نظر نہیں آتا ۔
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں ۔ ایک روز نبی ﷺ ایک جگہ قیام فرما ہوۓ (اور خطبہ ارشاد فرمایا) اسمیں ہمیں ابتداۓ آفرینش سے لے کر اسوقت تک جب اہل جنت اپنی منزلوں میں فروکش ہوں گے اور دوزخی آگ میں جل رہے ہوں گے ہمیں تمام حالات کی خبر دے دی (نبیﷺ کا علم غیب) (بخاری)

 آپ نے پوچھا میلاد والے دن سٹیج لگانا نبیﷺ کی موجودگی میں گستاخی ہو گی۔؟
حضرت عائیشہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ حضرت حسانؓ کے لۓ مسجد میں منبر رکھتے تھے اور وہ اس پر کھڑے ہو کر نبیﷺ کی شان میں اشعار پڑھتے تھے ۔

غور طلب بات یہ ہے کہ یہاں بھی تو نبیﷺ نفس بنفس حاضر ہوتے اور حضرت حسانؓ آپکی موجودگی میں منبر پر کھڑے ہوتے کیا یہاں توہین نہں۔؟

 آپنے پوچھا 12 ربیع الاول کو آپ میلاد مناتی ہیں کیا ربیع الاول عام الفیل سے پہلے بھی آپﷺ حاضر تھے ۔؟ اگر حاضر تھے تو پہلے میلاد کیوں نہ منایا گیا۔؟

بہن۔! آپ کا ایمان ہو گا کہ اللہ نے سب سے پہلے نبیﷺ کے نور کو بنایا ، جنت میں کلمہ (لا الہ الا اللہ) تختہ عرش پر لکھا گیا ، حضرت آدمؑ کو جب جنت سے نکالا گیا انھوں نے عرش کی طرف نگاہ کی یہ کلمہ لکھا ہوا پایا اور اس کلمہ کے وسیلہ سے اللہ سے اپنے گناہ کی معافی مانگی ، اور پھر اس ذات کے بارے میں پوچھا تو اللہ نے فرمایا کہ یہ وہ ہستی ہے کہ اے آدم اگر میں اسے نہ بناتا تو تجھے بھی نہ بناتا ۔ آپﷺ عرش پر مقیم تھے زمین پر ظہور پزیر نہ ہوۓ تھے ۔ عام لوگ غیب کی خبر نہیں رکھتے تھے جب ان کے سامنے آپﷺ ظاہری طور پر جلوہ فرما ہوۓ تو خوشیاں منائیں گئیں ۔

کیا آپ اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں کہ سب سے پہلے اللہ نے خود میلاد منایا ، فرشتوں نے خوشیاں منائیں ، حوروں نے خوشیاں منائیں ، آسمان سجایا گیا ۔

بت زمین پر منہ کے بل گرا دیئے گۓ ۔سب کچھ آپ جانتی ہیں پھر دلیل مانگتی ہیں۔
قرآن میں ارشاد ہے۔
 لقد من اللہ علی المومینین اذ بعث فیھم رسولا (ال عمران )
 واشکروا نعمت اللہ ان کنتم (النمل)
اللہ نے اپنی نعمتوں پر شکر ادا کرنے کی تاکید فرمائی ۔ اور فرمایا اگر تم شکر کا اظہار کرو گے تو اور نوازا جاۓ گا ۔ جب فانی نعمتوں پر شکر ادا کرنا واجب ہے تو نبیﷺ کی ولادت پر شکر ادا کرنا ضروری نہیں ۔ ؟

میلاد کا انعقاد بے اصل نہیں ۔نبیﷺ جب مدینہ میں تشریف فرما ہوۓ تو یہودی عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے ۔ نبیﷺ نے ان سے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ یہ وہ دن ہے جس دن فرعون غرق ہوا اور موسیؑ نے نجات پائی ۔ ہم اس نعمت کا شکر ادا کرنے کے لۓ روزہ رکھتے ہیں ۔ نبیﷺ نے خود بھی روزہ رکھا اور امت کو ایک دن کے بجاۓ دو دن کا روزہ رکھنے کی ہدائیت فرمائی ۔ اور اپنی ولادت کو رحمت سمجھتے ہوۓ اداۓ شکر میں پیر کا روزہ رکھتے تھے ۔ آج بھی پیر کا روزہ سنت رسول ہے ۔ (بخاری و مسلم)

نبی پاکﷺ کی ولادت کی خبر جب ابو لہب تک اسکی لونڈی ثوبیہ نے پہنچائی تو اسنے اپنی لونڈی کو آزاد کر دیا۔

اگرچہ اس کی موت کفر پر ہوئی اور اسکی مذمت میں پوری سو رۃ نازل ہوئی ۔ لیکن میلاد پر اظہار مسرت کی برکت سے ہر سوموار اسے پانی کا گھونٹ پلایا جاتا ہے۔ اور اس کے عذاب میں تخفیف کی جاتی ہے۔

جب ایک کافر جسکی مذمت میں پوری سورۃ نازل ہوئی اور جو تا ابد جہنم میں رہے گا اسکے بارے میں ہے کہ ولادت پر اظہار کی وجہ سے ھر سوموار اسکے عذاب میں تخفیف کی جاتی ہے ۔تو آپکا کیا خیال ہے اس بندے کے بارے میں جو زندگی بھر آپﷺ کی ولادت پر خوشی مناتا رہا اور کلمہ توحید پڑھتے ہوۓ اس دنیا سے رخصت ہوا ۔

اور آپ کا سوال اگر آپ کہتے ہیں کہ نبی ہر جگہ موجود ہے تو معراج کی رات آسمان پر جانے سے کیا مراد ہے ۔؟

اللہ نے اپنے محبوب کا ظاہری وجود ایک ہی بنایا ہے ۔ اور باطنی اس کے ہزار جلوے ہیں ۔ اس ظاہری وجود کو فرشتے آسمان پر ترستے ہیں۔

خدا مشتاق ہے ۔ خدا سے آپ پوشیدہ نہیں تھے لیکن پاس بلا کر راز و نیاز کی باتیں کرنا اور بات تھی ۔ 

عرش پر زندہ انسان کا جانا محال ہے ۔ لیکن یہ ہمارے نور مجسم کا معجزہ ہے ۔

آپ نے معراج کے لۓ ناٹک کا لفظ استعمال کیا ، ارے اس دیدار کو تو موسیؑ ترستے تھے اللہ سے اپنے نبی کی زیارت کی خواہش کی تو اللہ بار بار نمازیں کم کرنے کے بہانے حضرت موسیؑ کے پاس دیدار کروانے کے وعدے کو نبھاتے رہے ۔ نبیﷺ نے تمام انبیا کی امامت کروائی ، سدرۃالمنتہی پر نعلین پاک اتارے تو آواز آئی جوتوں سمیت آ ، عرش کب سے تیرے جوتوں کے بوسے لینے کیلیۓ ترس رہا ہے ۔

آپنے سوال کیا اگر نبی پاکﷺ موجود ہیں تو ان سے پردہ غیر محرم عورت پر لازم نہیں۔؟

بہن اس سوال کو پڑھ کر میں پانی پانی ہو گئی ۔ ارے وہ ہستی کہ جسکے جلو وں کو دیوانے ترستے ہیں ان دیوانوں کو پردے کا ہوش ہے ۔ ؟

کبھی آپ نے سوچا اس ہستی کا اپنی امت سے کیا رشتہ ہے۔؟

(آپﷺ کی ازواج مطہرات امت کی مائیں ہیں)(القرآن)

آپکا آخری سوال درود والا۔۔۔

جب نبی پاکﷺ نے خود فرمایا میں نبی تھا جب آدمؑ روح اور جسم کے درمیان تھے ، میں اپنی امت کے اعمال کا مشاہدہ کرتا ہوں ۔اور روز محشر میں اپنی امت کے اعمال کی گواہی دوں گا۔
نیز نبی پاکﷺ علم غیب رکھتے ہیں ، آپکی اشیا تبرکات کے طور پر آج بھی موجود ہیں ، آپﷺ کے وسیلے نیز صحابہ کے وسیلے اور اولیا کے وسیلے سے دعا قبول ہوتی ہے ۔ نیز ایصال ثواب کے متلق ، تعویز دعا کے بارے میں اور ہر وہ سوال جو آپکے ذیہن میں موجود ہو اسکے متعلق اگر پوچھنے کی پیاس رکھتی ہیں تو احادیث و قرآن کے دلائل کے علاوہ بات نہیں کروں گی۔

یہاں بھی صاف کہتی ہوں کہ آپ کا عقیدہ ہے کہ نبی پاکﷺ ہر جگہ موجود نہیں ہیں۔ اس لۓ آپ ایسا درود پڑھتے ہیں۔ جس میں آپ کیلے ساری ضمیریں غائب کی ہیں۔اور ہم ایسا درود پڑھتے ہیں جس میں ساری ضمیریں حاضر کی ہیں۔

میں صرف اتنا کہوں گی کہ آپ نے کبھی تشہد پے غور کیا ؟ 
ہم کہتے ہیں۔۔التحیات۔۔۔۔۔۔الخ۔۔

آپﷺ نے فرمایا مجھ پر درود پڑھو تمھارا درود مجھ تک پہنچایا جاتا ہے۔ جمعہ کو کثرت سے درود پڑھو اس روز میں خود درود سنتا ہوں۔

یہاں نماز میں بھی آپﷺ کو مخا طب کر کے سلام دیا جا رہا ہے کیا یہاں آپﷺ ہر جگہ ہر نمازی کا سلام سنتے اور جواب نہیں دیتے ؟
اگر غائب کی بات ہوتی تو ہم کہتے السلام علیہ۔۔۔
ا
لغرض میری بہن آپ نے اگر غیر جانبدار ہو کر ان جوابات پے غور کیا تو ہدائیت آپ کے قدم چومے گی ۔

آخری بات۔۔۔اگر آپ کا ذہن مطمئن نہ ہو تو میں آپ کو ان خلشوں سے نکلنے کا راستہ بتاتی ہوں۔

جمعرات کی رات استخارہ کیجئے گا ، اللہ سے اپنے سوال کے جواب کی امید کرتے ہوۓ دائیں کروٹ پر سو جائیں ، اگر آپ کو جواب میں سفید یا سبز رنگ دکھائی دے تو سمجھ لیں میری باتیں سچ ہیں ۔اور اگر کالا یا سرخ رنگ دکھائی دے تو سمجھ لیں نا حق ہیں۔

آپ کے جواب کی منتظر ارم شہزادی۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بسم اللہ الر حمن الرحیم
اسلام و علیکم

ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر و یامرون باالمعروف۔۔۔۔الخ
(ال عمران 104)

اللہ نے ہر قوم سے ایک گروہ کو یہ زمہ داری سونپ دی ہے ۔ جو نیکی کی طرف دعوت دیں اور برائی سے روکیں۔

پاک محمدﷺ کا فرمان ہے کہ (بلغو عنی ولو آہہ) تم دین کی تبلیغ کرو اگرچہ وہ ایک آیت یا ایک حدیث ہی کیوں نہ ہو تو یہ اللہ اور رسولﷺ کا پیغام ایک دوسرے تک پنچا نا مناظرہ یا مجادلہ نہیں ہوتا بلکہ میرے خیال سے دین کی اشاعت ہے ۔ کیونکہ ہر کوئی علم کا سمندر نہیں ہوتا ۔ بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو ہمارے علم میں نہیں ہوتیں ۔ ہم ان کو جان کر اپنی غلطیوں کو درست کر سکتے ہیں ۔

بہنا ۔!

آپ نے اللہ کو حاضر جان کر ابتدائی تمہید میں یہ وعدہ کیا تھا کہ قرآن و حدیث کے علاوہ کسی چیز کو دلیل نہیں بنائیں گی ۔ لیکن درمیانی تحریر میں آپ نے یہ وعدہ وفا نہیں کیا ۔

مثلا 

 آپ نے لکھا ہے کہ اللہ نے سب سے پہلے نبیﷺ کے نور کو بنایا ، لا الہ الا اللہ تختہ عرش پر لکھا گیا ، حضرت آدمؑ نے کلمہ کے وسیلہ سے معافی طلب کی ، اور پھر اس ہستی کے متعلق دریافت فرمایا اور اللہ نے ۔۔۔۔۔۔ الخ

 کیا یہ ساری عبارت آپ نے قرآن سے نقل کی ہے یا حدیث سے ۔؟

اس کے علاوہ بخاری کی ابو لہب والی حدیث میں یہ الفاظ ہر سوموار کو اسے پانے پلایا جاتا ہے اور عذاب میں تحفیف کی جاتی ہے ۔۔۔ یہ الفاظ آپ کے اپنے ہیں یا رسولﷺ سے ثابت ۔؟

 ااور یہ الفاظ اللہ نے اپنے نبیﷺ کا ظاہری وجود ایک بنایا اور باطن ان کے ہزار جلوے ہیں ۔ 
علاوہ ازیں
 سدرۃالمنتہی پر نعلین پاک اتارنے لگے تو آواز آئی جوتوں سمیت آ 
 اور نبی پاکﷺ سے منسوب یہ الفاظ میں اپنی امت کے اعمال کا مشاہدہ کرتا ہوں اور یہ کہ استخارہ کے لئے جمعرات کی رات ہونا لازمی ہے ۔ اور رنگ کا دیکھائی دینا کیا مزکورہ بالا تمام باتیں کلام اللہ اور حدیث رسولﷺ سے ثابت ہیں ۔؟

اب آتی ہوں آپ کے بیان کردہ دلائل اور جواب کی طرف ۔ 

بخاری کی عقبہؓ والی حدیث کو دلیل بنا کر آپ نے مندرجہ ذیل باتیں ثابت کی ہیں ۔

 زیارت قبور ؛

مردوں کا قبروں کی زیارت کرنا اس میں میرا کوئی اختلاف نہیں۔ پاک محمدﷺ کا فرمان ہے کنت نہیتکم عن زیارت القبور فزروھا (مشکوٰۃ)

قبروں کی زیارت آخرت کی یاد دلاتی ہے ۔ لیکن قبر کو عبادت گاہ بنانا اسکے متعلق آپﷺ نے فرمایا ۔ اللھم لا تجعل قبری وثنا یعبد (مشکوٰۃ باب المساجد عن مالک فی مؤطا) اے اللہ میری قبر کو عبادت گاہ نہ بنانا ۔

قبروں پر جا کر نزرو نیاز چڑھانا یہ عبادت میں شامل ہے کیونکہ آپﷺ نے فرمایا ۔ الدعاء ھو العبادہ (مشکوٰۃ) دعا ہی اصل عبادت ہے۔

اور اگر اس عبادت کو قبر پے جا کر سر انجام دیا جاۓ تو اس حدیث کی روشنی میں انجام تصور کر سکتی ہیں۔

رسولﷺ نے قبر کو عبادت گاہ بنانے والوں پر لعنت کی ہے (بخاری)

عورتوں کے لۓ قبر لی زیارت کہاں تک جائیز ہے ۔ لعن رسولﷺ زائرات القبور والمتخذین علیھا مساجد والسروج (ابوداؤد ترمذی)
 حضرت عقبہؓ اور حضرت عمرؓ کی روایت سے آپ نے نبی پاکﷺ کا علم غیب ثابت کرنے کی کوشش کی ۔

تو بہنا ۔!

اطلاعا عرض ہے کہ انبیاء صرف وہ علم جانتے ہیں جس کی وحی ان کی طرف کی جاتی ہے ۔ ملاحظہ ہو رب کا قرآن
٭ وما ینطق عن الھوی ان ھو الا احی یوحی (النجم 3)
کہ انبیاء جو بھی باتیں بتاتے ہیں وحی کی باتیں ہوتی ہیں ۔ رسولﷺ کا فرمان اللہ کی قسم میں نہیں جانتا حلانکہ میں اللہ کا رسول ہوں میرے ساتھ کیا ہو گا اور تمھارے ساتھ کیا ہو گا (بخاری)

اللہ کا فرمان ہے ۔ یسئلونك عن الساعۃ۝ ایان مرسھا۝ فیما انت من ذکرٰھا۝ الیٰ ربك منتھٰھا۝ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ قیامت کب آۓ گی ۔ اے نبیﷺ آپ کو کیا علم کہ قیامت کب آۓ گی ۔ اس کا علم تو صرف اللہ کو ہے ۔

عقبہؓ والی حدیث سے آپ نے نبی پاکﷺ کا تصرف ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ 

انبیاء کا تصرف اسی قدر ہوتا ہے جتنا اللہ نے ان کو دیا ہو ۔ انبیاء مختار کل نہیں ہوتے ۔ بہت سی چیزوں کا تصرف انبیاء کے قبضہ میں نہیں ہوتا ۔ دلیل ملاحظہ ہو ۔

قل لا املك لنفسی نفعا ولا ضر ا (الاعراٖف 188)
اے نبیﷺ فرما دیجئے کہ میں اپنے نفس کے لۓ بھی نفع یا نقصان کا مالک نہیں ۝ 

ایک اور مقام پے فرمایا ۔ اے نبیﷺ فرما دیجئے کہ میں تم سے نہیں کہتا میرے پاس زمین کے خزانے ہیں نہ میرے پاس علم غیب ہے نہ میں فرشتہ ہوں میں تو صرف وحی کی پیروی کرتا ہوں۝ انعام 50

حضرت عقبہؓ کی حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ مسلمان سے شرک جیسا گناہ سرزد نہیں ہوتا۔

عن ابی الدردااء قال اوصانی خلیلی ان لا تشرك بااللہ شیئا و ان قطعت و حرکت ولا تترك صلوٰۃ مکتوبۃ متعمدا (ابن ماجہ)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان سے شرک جیسا گناہ سرزد ہو سکتا ہے۔

اور نبی پاکﷺ کا فرمان میری امت سے فوت ہونے والا ہر وہ شخص میری شفاعت کا حق دار ہو گا جس نے شرک نہ کیا (مسلم)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی پاکﷺ کی امت سے بھی کچھ لوگ شرک کریں گے۔

(اور نبی پاکﷺ کا فرمان کہ مجھے یہ ڈر نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرو گے) اس وقت چونکہ آپﷺ یہ بیان کر رہے تھے کہ مسلمانوں کے حالات جیسے آج ہیں ایسے نہیں رہیں گے ، دولت عام ہو جاۓ گی مجھے یہ ڈر نہیں تم لوگ شرک کرو گے بلکہ یہ خوف ہے کہ تم دنیا میں رغبت کرو گے ۔
اور پھر تاریخ شاہد ہے کہ حضرت عمرؓ کے دور میں بیعت رضوان والا درخت کٹوا دیا گیا تھا کیونکہ لوگوں نے اس سے تبرک حاصل کرنا شروع کر دیا تھا اور حضرت عمرؓ جانتے تھے کہ درخت کسی نفع یا نقصان کا مالک نہیں۔
اور یاد رکھۓ ہر وہ مشرک ہے (کس باشد) جو اللہ کی ذات ، صفات ، اوھیت اور ربوبیت میں کسی کو شریک کرتا ہے

 نبی پاکﷺ کی موجودگی میں سٹیج لگانے والی حدیث صحیح حدیث ہے ۔ لیکن کیا حضرت حسانؓ ہمیشہ خود منبر پر بیٹھتے تھے ۔؟
کیا صحابہ ہمیشہ خود امامت کرواتے تھے ۔؟
 عام الفیل سے پہلے آپﷺ حاضر تھے اور میلاد منایا جاتا تھا ۔ اس ک متعلق نقل کی جانے والی عبارت خود ساخطہ ہے ۔ اور یہ یاد رکھیں نبی پاکﷺ کا فرمان ہے کہ من کذب علی متعمدا فلیتبوا مقعدہ من النار جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا اس نے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لیا ۔

بہر حال آپ نے اس شاعرانہ عبارت سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ نبی پاکﷺ عام الفیل سے پہلے بھی موجود تھے ۔ آپ اپنے عقائد کا اللہ کے اس ارشادات سے تقابل کیجۓ ۔ 

٭ وما کنت بجانب الغربی اذ قضینا الیٰ موسیٰ الامرو ما کنت من الشاھدین (القصص 44) اور نہیں تھے آپﷺ پہار کی مغربی جانب جب ہم نے موسیٰ کو احکامات دیئے اور آپ اس وقت گواہ بھی نہیں تھے ۔

اور اللہ نے حضرت مریمؑ کا قصہ بیان کرنے کے بعد نبی پاکﷺ سے فرمایا 
٭ وما کنت لدیھم اذ یلقون اقلامھم ایھم یکفل مریم وما کنت لدیھم اذ یختصمون (ال عمران 44)
اور آپﷺ ان لوگوں کے پاس موجود نہیں تہے جب وہ اپنے قلم ڈال رہے تھے کہ ان میں سے کون مریم کی سرپرستی کرے ۔؟ اور نہ آپ اس وقت موجود تھے جب وہ باہم اختلاف کر رہے تھے ۔

اور آپ اس وقت بھی موجود نہ تھے جب یوسفؑ کے بھائیوں نے پختہ ارادہ کر لیا تھا اور وہ چالیں چل رہے تھے (یوسف 102)

ان تمام آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ عام الفیل سے پہلے حاضر نہیں تھے اور عام الفیل کے بعد کی موجودگی (ہر جگہ پر) کی نفی یہ آیت کر رہی ہے ۔

٭ لتدخلن المسجد الحرام ان شاء اللہ امینین محلیقین رؤسکم و مقصرین لا تخافون (الفتح 27)
تم لوگ مسجد حرام میں ان شاء اللہ ضرور داخل ہو گے ۔

داخل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپﷺ پہلے موجود نہ تھے ۔ ان آیات کے ساتھ ساتھ حقائق و واقعات بھی اس عقیدے کی تردید کرتے ہیں ۔ آپﷺ جب حجرہ مبارک میں ہوتے تو صحابہ مسجد میں انتظار فرمایا کرتے تھے ۔ اگر آپﷺ حاضر تھے تو صحابہ کا انتظار کرنا کیا معنی رکھتا ہے ۔؟
افلا یتدبرون القرآن ام علیٰ قلوب اقفالھا (محمد 24) کیا لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے یا دلوں پر تالے لگ گۓ ہیں۔؟

اور کہنا کہ حضرت آدمؑ نے کلمہ کے وسیلہ سے ۔۔۔۔الخ ۔ یہ سرا سر جھوٹ ہے ۔ قرآن کے اس فرمان کے خلاف ہے ۔ حضرت آدمؑ نے جن الفاظ کو پڑھ کر توبہ کی تھی وہ یہ ہیں ۔

قالا ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخسرین (الاعراف 23)

اور میں یہاں ایک اور بات کی طرف توجہ دلا دوں کہ جب کسی بزرگ کی بات اللہ اور نبی پاکﷺ کے فرمان کے مخالف ہو تو اپنے بڑوں کی بات کو چھوڑ دینا چاہئے اور اللہ رسولﷺ کی بات ماننی چاہئے ۔

اور کہنا کہ اے آدم اگر میں نبیﷺ کو نہ بناتا تو تجھے بھی نہ بناتا ۔ یہ بات قرآن کے اس ظاہری نص کے خلاف ہے ۔ اللہ نے اس کائنات کا مقصد بیان کرتے ہوۓ فرمایا۔

٭ وما خلقت الجن الانس الا لیعبدون (ذاریات 56)
اور جس مقصد کے لۓ آپﷺ نے اپنی ساری عمر وقف کر دی وہ ہے لا الہ الا اللہ کی سر بلندی مذکورہ بالا آیت سے واضح ہے کہ کائنات کی تخلیق کا مقصد رب کی واحدانیت ہے ۔

اور آپ کا یہ کہنا کہ آپﷺ عرش پر مقیم تھے ۔ من گھڑت ہے ۔ 

ھو رب العرش العظیم (النمل 26) عرش کا مالک اللہ ہے ۔

اور آپ کا یہ کہنا اللہ نے میلاد منایا ۔۔۔۔الخ 
ایسی افسانوی باتوں سے حق کو باطل اور باطل کو حق قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اسلام صرف کتاب اللہ و سنۃ رسولہ کا نام ہے ۔

اور اپ کا یہ کہنا کہ اللہ نے سب سے پہلے نبی پاکﷺ کے نور کو پیدا کیا ۔ نبی پاکﷺ کے اس فرمان کے خلاف ہے کہ اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا (ابوداؤد)

اور 2 آیات سے آپ نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ میلاد منانا اللہ کی نعمت کا شکر ادا کرنا ہے ۔
تو یاد رکھیں کہ اللہ نے سورۃ عمران میں یہ بات بیان کر دی ہے کہ جب نبی پاکﷺ تشریف لے آئیں تو اس نعمت کا شکر ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے (لتومنن بہ ولتنصرنہ)

اور اللہ کی نعمتوں کا شکر آپﷺ کی سنت کی موافقت میں ہے مخالفت میں نہیں ۔
آپ نے مسلم شریف کی روایت بیان کی ہے اس سنت پر عمل کر تے ہوۓ روزہ رکھ کے بھی آپ شکر بجا لا سکتی ہیں۔ لیکن اس سے بڑھ کر عمل کرنے کی کوشش کریں گی تو اس کا ثواب نہیں گناہ ہو گا ۔ جس طرح فجر کے دو فرض ہیں اگر کوئی تین فرض پڑھتا ہے تو پڑھی اس نے بھی نماز ہی ہے ۔ لیکن اس کا ثواب نہیں الٹا گناہ ہو گا کیونکہ تین رکعات پڑھنے والے کا طریقہ نبی پاکﷺ کی سنت کی مخالفت میں ہے ۔ یہی بات یہاں بھی سمجھ لیں ۔

اور عاشورہ کا روزہ 10 محرم کا روزہ ہوتا ہے 12 ربیع الاول کے روزے کو نہیں کہتے ۔
ابو لہب والی حدیث میں بھی آپ نے تحریف کی ہے ۔(اپنے الفاظ شامل کیئے ہیں)
یہ حدیث مرفوع نہیں ہے۔ 
یہ ایک مسلمان کا خواب تھا جو اس نے حالت کفر میں دیکھا تھا
 ابو لہب کا عمل ہمارے لۓ حجت نہیں
اور اگر تسلیم کر بھی لیا جاۓ کہ واقعی اس کے عذاب میں تخفیف ہوتی ہے تو اس بات کو سمجھنے کے لۓ یہاں ایک واقعہ ذکر کرتی ہوں ۔
نبی پاکﷺ کا فرمان ہے کہ پہلی امتوں میں ایک بندہ تھا جو اللہ کا نافرمان تھا ۔جب وہ مرنے لگا تو اس نے اپنی اولاد کو وصیت کی کہ جب میں مر جاؤں تو میرا جسم جلا دینا اور آدھی راکھ پانی میں بہا دینا اور آدھی ہوا میں اڑا دینا ۔ کیونکہ میں نے کوئی اچھا کام نہیں کیا ۔اور اگر اللہ نے مجھے دوبارہ زندہ کر لیا تو مجھے ایسا عذاب دیں گے جو پہلے کسی کو نہ دیا ہو ۔ تو اللہ نے اسے دوبارہ زندہ کیا اور پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کہا ۔؟ فو اس نے جواب دیا ۔ اے اللہ مجھے تجھ سے ڈر لگتا تھا ۔ تو اللہ نے اسے بخش دیا ۔(بخاری مسلم)

اب کیا خیال ہے آپ کا ۔؟

اگر کوئی نبی پاکﷺ کی دفن والی سنت کو چھوڑ کر اس جلانے والی ہندوانہ رسم پر عمل کرتے ہوۓ اپنے گناہوں کو بخشوانا چاہتا ہے۔ تو کیا اللہ اسے بخش دیں گے ۔؟

اسی طرح اگر تسلیم کر بھی لیں کہ ابو لہب کے عزاب میں تخفیف ہوتی ہے ۔ تو تب بھی یہ عمل ہمارے لۓ حجت نہیں ہے ۔ کیونکہ نبی پاکﷺ نے اس طریقے پر عمل نہیں کیا ۔

اور آپ کا کہنا باطنی آپﷺ کے ہزار جلوے ہیں ۔ من گھڑت ہے ۔ کیونکہ جب آپﷺ بدر میں تھے تو مکہ میں نہیں تھے ۔ احد میں تھے تو بدر میں نہں تھے۔

آپ نے واقعہ معراج بیان کرنے میں کافی زور دیا ہے ۔ ظاہر ہے آپ نے معراج والی حدیث ضرور پڑھی ہو گی ۔ تو کیا آپ اس میں یہ الفاظ نظر نہیں آۓ یا جان بوجھ کر چشم پوشی کی ہے ۔ فنطلق بی جبرائیل ۔۔۔۔۔ الخ (بخاری)
مجھے جبرائیل ؑ لے کر چلے آسمان کی طرف ۔ پھر دروازہ کھولنے کو کھا ، فرشتوں نے پوچھا کون ہے ۔؟ جواب دیا میں جبرائیل ہوں ، پوچھا کیا تمھارے ساتھ کون ہے ۔؟ کہا محمدﷺ ، پھر پوچھا گیا کیا ان کو بلایا گیا ہے ۔؟ فرمایا ہاں تب دروازہ کھلا ۔ اس حدیث سے آپ سمجھ چکی ہوں گی کہ میں کیا ثابت کرنا چاہتی ہوں۔۔ 

(آپ کا یہ دعوٰی کہ نبی پاکﷺ مختار کل ہیں ۔ اور نبی پاکﷺ کا ایک باطنی جسم وہاں موجود تھا ۔) 

ارے یہاں تو اجازتوں کی بات ہو رہی ہے ۔ کیا اللہ نے بلایا ہے ۔؟ اجازت دی ہے ؟ اگر پہلے سے وہاں موجود ہوتے تو فرشتوں کو پوچھنے کی کیا ضرورت تھی ۔ حضرت جبرائیل وہاں آتے جاتے تھے تو ان کے متعلق نہ پوچھا گیا ۔ صرف محمدﷺ کے متعلق پوچھا گیا ۔ تو اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپﷺ پہلی بار وہاں پے گۓ تھے ۔

اور آپ کے خیال سے نبی پاکﷺ سے پردہ کرنا جائیز نہیں۔

کبھی آپ غور کیا ۔ نبی پاکﷺ کی ازواج امت کی مائیں ہونے کے باوجود پردہ کرتیں تھیں۔

اللہ نے فرمایا ۔ اے نبی اپنی بیویوں سے کہہ دیں کہ اپنے گھروں میں ٹھری رہیں اور اپنی زیب و زینت کو ظاہر نہ کریں ۔(احزاب)

اس کے علاوہ میرے پاس 2 احادیث بھی موجود ہیں۔ 

اب میں آتی ہوں آپ کی لکھی ہوئی اس بات کی طرف کہ (1) میں اپنی امت کے اعمال کا مشاہدہ کرتا ہوں (2) روز محشر میں اپنی امت کی گواہی دوں گا ۔

ان دونوں باتوں میں سے آپ کی پہلی بات من گھڑت ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے کہ۔

اور اسی طرح ہم نے تم کو عادل امت بنایا تا کہ تم (پچھلی) امتوں پر گواہ بن جاؤ اور اسول اللہ ﷺ تم پر گواہ بن جائیں (البقرہ 143)

نبی پاکﷺ کا فرمان ہے کہ حضرت نوحؑ کو قیامت کے روز لایا جاۓ گا ۔ اور ان سے پوچھا جاۓ گا ۔ کیا آپ نے میرا پیغام امت تک پنچایا ۔؟
تو وہ کہیں گے ہاں ۔
پھر ان کی امت سے پوچھا جاۓ گا کیا نوحؑ نے میرا پیغام پہنچایا۔؟ وہ صاف انکار کر دیں گے ۔ تو حضرت نوحؑ سے کہا جاۓ گا کوئی گواہ پیش کرو ۔ تو وہ کہیں گے محمدﷺ اور ان کی امت گواہ ہے ۔(بخاری)

تو اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی پاکﷺ ہم پر اور پہلی امتوں پر گواہی دیں گے اور ہم (امت محمدیہ) پچھلی امتوں پر گواہی دیں گے۔

اب میرا سوال ہے آپ سے ۔ کہ اگر آپ خود کو امت محمدیہ سے سمجھتی ہیں تو روز محشر اس آیت اور حدیث کی رو سے آپ کو بھی گواہی دینا ہو گی ۔ تو بتائیۓ ۔ آپ نے پہلے انبیاء اور ان کی امتوں میں سے کس کس نبی اور ان کی امتوں کے اعمال کا مشاہدہ کیا ہے ۔؟

اگر مشاہدہ کیا تھا اور آپ کو کچھ چیدہ چیدہ باتیں یاد ہیں تو ہمیں بھی مطلع فرما دیں (وان لم تفعلوا الن تفعلوا) تو پھر مان لیں کہ نبی پاکﷺ کی گواہی اور امت کی گواہی مشاہدہ سے نہیں بلکہ وحی سے ہو گی ۔ کیونکہ ایک اور حدیث میں آتا ہے اللہ پوچھیں گے اے امت محمدیہ تمھیں کیسے معلوم ہوا ۔؟ جواب دینگے ہم نے قرآن میں پڑھا اور گواہی دی۔

باقی رہی بات ایصال ثواب ، تبرکات ، وسیلہ اور تعویز کی تو انشاء اللہ اس پے بھی بات ہو گی۔

آگے آپ نے لکھا کہ آپ ایسا درود پڑھے ہیں جس میں ضمیریں غائب کی ہیں اور ہم ایسا پڑھتے ہیں جس میں حاضر کی ہیں۔ یہ بات بھی آپ نے غلط کی میں ذرا تھیک کر دوں ۔

ہم ایسا درود پڑھتے ہیں جو نبی پاکﷺ سے ثابت ہے اور آپ ایسا پڑھتے ہیں جو بزرگوں سے ثابت ہے۔
ہم اگر بزرگوں کی بات نبی پاکﷺ کی بات کے مخالف ہو تو اسے جوتے کی نوک پہ رکھتے ہیں۔ اور آپﷺ کی بات مانتے ہیں۔
اور اگر غائب اور حاضر والا مسلئہ ہوتا تو ہم تشہد بھی غائب والا پڑھتے۔
ہم درود غایب والا اس لۓ پڑھتے ہیں کہ وہ نبی پاکﷺ نے ایساہی پڑھا ۔ اور حاضر والا سلام اس کۓ پڑھتے ہیں کہ وہ آپﷺ سے اسی طرح ثابت ہے۔

اس سے آگے آپ نے ایک اور حدیث نقل کی کہ جمعہ کے دن مجھ پے درود پڑھو تمھارا درود مجھ تک پہنچایا جاتا ہے (ابن ماجہ) یہاں تک تو حدیث تھیک ہے اس سے آگے اپنی عادت کے مطابق ڈالڈا ملانے کی کوشش کی ہے ( اس روز میں خود درود سنتا ہوں) یہ الفاظ آپ کے اپنے ہیں۔

اور آخری بات کہ آپ نے کہا ہم سلام (نشہد) میں حاضر کی ضمیر استعمال کرتے ہیں تو کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ آپ حاضر ہیں ۔

تو یاد رکھیں جس طرح ہم پڑھتے ہیں انا نحن نزلنا (الحجر97) (الانسان 23) (اسرا 83) (الواقعہ 57) ان ساری آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں (ہم) کا لفظ آتا ہے ۔ (ہم پیدا کرتے ہیں) (ہم مارتے ہیں) تو یہ ساری صفات اللہ کی ہیں ۔ زندہ کرنے والا بھی وہ ، مارنے والا بھی وہ ۔ تو کیا (ہم) کہنے سے یہ صفات انسانوں کی طرف منسوب ہو جاتی ہیں ۔؟

ان آیات میں جمعہ متکلم کا صیغہ استعمال کرنے کے باوجود بھی یہ صفات اللہ کی ہی رہتی ہیں۔

اسطرح صحابہ جب سلام پڑھتے تھے تو آپ حاضر ہوتے اس لۓ حاضر کی ضمیر استعمال کرتے تھے ۔اب آپ جب موجود نہیں ہیں تب بھی ہم پر لازم ہے کہ ہم مخاطب ضمیر استعمال کریں۔
مزید وضاحت کرتی چلوں
حکایۃ ، روایۃ ، تلاوۃ کسی بات کو بیان کیا جاۓ تو اس میں صیغہ کا اعتبار وہ ہو گا جو بات کرنے والے کا مقصد تھا ۔

آپ بھی استخارہ کریں میں بھی کرتی ہوں ۔ اور استخارہ کے لۓ لازم نہیں کہ جمعرات کا دن ہی ہو ۔ اور استخارہ میں کوئی رنگ نظر نہیں آتا ۔ بلکہ اللہ جس طرح چاہیں راہنمائی کرتے ہیں۔

آپ کے جواب کی منتظر ھنتہ بٹ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ 4 سال ہو چکے ہیں مجھے اس تحریر کا جواب نہیں ملا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق دے آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ھنتہ بٹ


  نہ کر بندیا تیری میری کجھ نئیں میری تیری چار دناں دا میلہ محمد فر مٹی دی ڈھیری